*اے اللہ ہم کو سیدھا راستہ دکھا اور نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرما
محمد خالد
اللہ تعالٰی انصاف پسند ہے اور بندوں کو بھی انصاف کے راستے کو اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے. یوں تو پوری دنیا میں کورونا وائرس کے متاثرین موجود ہیں اور مستقل ان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے مگر جو ممالک خود کو اس زمین کا مالک سمجھ بیٹھے تھے اور اپنے مفادات کے لئے بنائے گئے طریقوں پر دنیا کو چلاتے آئے ہیں، آج وہی ممالک سب سے زیادہ کورونا وائرس کا شکار ہیں اور اس چھوٹے سے وائرس نے ثابت کردیا ہے کہ اللہ کے پیدا کردہ اس انتہائی چھوٹے سے وائرس کے سامنے ان ممالک کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حاصل کی گئی ساری ترقی کی کوئی حیثیت نہیں ہے. ان ممالک نے بڑی ہی عیاری کے ساتھ دنیا پر قبضہ کرنے کی غرض سے اقوام متحدہ جیسا ادارہ قائم کر کے ظاہری طور پر عدل و انصاف کے اصول بنائے تھے جس کی بنیاد پر ترقی پذیر ممالک کے اختیارات کو محدود رکھنے کا اہتمام کیا گیا تھا اور جب بھی کوئی ترقی پذیر ملک اپنے حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا تو اس پر اقوام متحدہ کے ضابطہ کے مطابق کارروائی کی جاتی مگر جب یہ ترقی یافتہ ممالک اپنے مفادات کے لئے اقوام متحدہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے اور ترقی یافتہ ممالک کو اعتراض ہوتا تو اس اعتراض سے بچنے کے لئے اقوام متحدہ کے ضابطہ میں "ویٹو" پاور کا نظم رکھا گیا تھا ترقی پذیر ممالک اس ویٹو پاور کی وجہ سے زبان بند رکھنے کے لئے مجبور ہیں مگر اللہ تو رحمان اور رحیم ہے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ویٹو پاور کا ایک معمولی سا اظہار کیا ہے تو خود کو دنیا کا مالک سمجھنے والے یہ ترقی یافتہ ممالک کیسے بے بس نظر آ رہے ہیں. افسوس کہ خود ساختہ ترقی یافتہ ممالک اور ان سب کا چودھری امریکہ نے ابھی بھی اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہے جس کا تازہ نمونہ بھارت کے وزیراعظم کو امریکی صدر کی وہ دھمکی آمیز گفتگو ہے جس میں انھوں نے اپنے لئے ضروری دواؤں کو امریکہ کو فراہم کرنے کی بات کہی ہے اور اس سے زیادہ افسوس کی بات ہے کہ بھارت نے اپنی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس دھمکی پر لبیک کہا. کہیں ایسا نہ ہو کہ امریکی صدر اور ان جیسے دوسرے افراد کی یہ ہٹ دھرمی اللہ کی ناراضگی میں اضافے کا سبب بن جائے. عقل کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش کرے تاکہ خالقِ کائنات کے دئے ہوئے نظام کا انسانیت کی بہتری کے لئے استعمال ممکن ہو.
جب سے اس مہلک مرض نے اپنے ملک میں بھی موجودگی درج کرائی ہے تبھی سے مختلف سیاسی اور سماجی شخصیتوں نے اس مرض سے باخبر کرنے کی کوشش شروع کردی تھی ابتدا میں ملت اسلامیہ کی کسی بھی قسم کی قیادت کی طرف سے اس سے بچنے کی کوئی خاص فکر سامنے نہیں آئی تھی مگر جب مارچ کے دوسرے ہفتے میں مریضوں کی تصدیق ہونے لگی تو پھر حکومتی ادارے متحرک ہونا شروع ہوئے اور ہماری مذہبی قیادت اور تنظیموں کی طرف سے بھی رہنمائی کی جانے لگی کہ اس وبائی مرض سے بچنے کے لئے "سماجی دوری" کا اختیار کیا جانا ضروری ہے اس لئے مسجدوں کے بجائے گھروں میں ہی نماز ادا کی جائے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان اپیلوں کا عام مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا اور وہ پولیس کارروائی کی وجہ سے ہی مسجدوں سے دور ہوئے.
حکومتی اداروں کی جانب سے شب برات کے تعلق سے دوبارہ اپیل کی گئی کہ لوگ قبرستانوں میں اکٹھا ہونے کے بجائے اپنے گھروں میں ہی شب برات کی رسومات ادا کریں تو ہماری مذہبی قیادت اور اجتماعی طور پر تقریباً سبھی تنظیموں نے اپیل کی کہ لوگ شب برات کی رسومات اپنے اپنے گھروں میں ہی ادا کریں.
ہماری مذہبی قیادت کے ذریعہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ملت اسلامیہ ہی نہیں بلکہ انسانیت کو اللہ کی ہدایت اور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے واقف اور وابستہ کرانے اور ہر فضول اور غیر اسلامی طور طریقوں سے محفوظ کرنے کی کوشش کرتی اور اپنے معاملات زندگی کو اللہ کے طریقے پر انجام دینے کی جدوجہد کی طرف متوجہ کرتی کیونکہ اللہ رب العالمین نے سورہ آل عمران میں اعلان کیا ہے کہ "اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے. تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو" ہمیں لحاظ رہنا چاہیے کہ ہم پر یہ عظیم الشان ذمہ داری تفویض کی گئی ہے اور اسی حیثیت سے ہم کو اللہ کی عدالت میں جواب دینا ہے. اللہ رب العزت نے بڑی وضاحت سے سورہ المائدہ میں فرمایا کہ" میں نے آج کے دن تمہارا دین مکمل کر دیا ہے، اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا ہے، اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا ہوں" تو پھر ہم کس بنیاد پر اپنی خیر امت ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کر کے بدعات کو اپنی زندگی میں داخل ہونے دیتے ہیں. بدعات سے کیا حاصل ہونے والا ہے سوائے اللہ کی ناراضگی کے اور ہم سب خوب جانتے ہیں کہ اللہ کی ناراضگی کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے.
رحمت العالمین حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث بھی وضاحت کے ساتھ بدعت کی حسّاسیت پیش کرتی ہیں.
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ (متفق علیہ) ’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے تو وہ(یعنی وہ نئی بات یا پھر اس کا ایجاد کرنے والا) مردودہے.‘‘
٭ صحیح مسلم کی ایک اور حدیث مبارکہ ہے جس کے راوی حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ہیں. وہ نبی ﷺ کا ایک خطبہ نقل کرتے ہیں جس کا کچھ حصہ یہ ہے: ’’امابعد! یقینا بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین راستہ محمد ﷺ کا راستہ ہے اور بدترین کام دین میں نئے پیدا کردہ کام ہیں اور ہر نیا کام(بدعت) گمراہی ہے‘‘. اور ایک جگہ فرمایا:’’ہر گمراہی کا انجام جہنم کی آگ ہے.‘‘
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے لوگوں کو ہدایت کی دعوت دی اسے ہدایت پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کے برابر اجر وثواب ملے گا اور ہدایت پر عمل کرنے والوں کے اپنے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہو گی. اور جس شخص نے لوگوں کو کسی گمراہی کی طرف بلایا اس کو ان تمام لوگوں کاگناہ ہو گا جو اس گمراہی پر عمل کریں گے جبکہ گناہ کرنے والوں کے اپنے گناہوں میں بھی اس سے کوئی کمی نہیں ہو گی. ‘‘(صحیح مسلم)
اللہ ہم سب کو جہنم کی آگ سے محفوظ رہنے کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین