ڈاکٹر مجاہدلاسلام
مانولکھنؤ کیمپس
مَجاز لکھنوی کی شخصیت اردو ادب میں ایک انوکھا امتزاج تھی وہ جہاں ایک طرف ایک رومان پرور، انقلابی اور حساس شاعر تھے، وہیں دوسری جانب لطیفہ گوئی، حاضر جوابی، اور بزلہ سنجی میں بھی یکتا مقام رکھتے تھے۔ ان کی زندگی بظاہر قہقہوں اور ہنسی کی محفل تھی، لیکن اس خوش مزاجی کے پیچھے ایک گہرا دکھ اور مسلسل محرومیوں کا سایہ تھا۔فردوس Èرزو لکھتے ہیں:
"مجاز ایک تبسم کا نام تھا ایک ایسا تبسم جس کے پش پشت تفکرات اور غموں کا انبار پوشیدہ تھا... آفریں تھا وہ شخص جو زہر پیتا رہا اور ہنستا رہا، خود پر بھی اور دوسروں پر بھی...‘‘(علی گڑھ میگزین: ایڈیٹر : محمد علی جوہر1984-85ص202)
اس اقتباس سے مجاز کی دکھی مگر باوقار اور خوش مزاج شخصیت کا ایک دلگداز پہلو اجاگر ہوتا ہے۔
ان کی زندگی میں محرومیاں تو تھیں، مگر ان کا مزاح اور لطیفہ گوئی اس قدر دلکش تھی کہ ہر محفل میں وہ مرکزِ نگاہ بن جاتے۔لطیفہ گوئی محض قہقہوں کی تخلیق نہیں بلکہ انسانی احساسات اور مشاہدے کا نچوڑ ہے۔ جمال احمد پاشا کے مطابق:
"مختصر ترین واقعے کو جس میں مزاح کی چاشنی ہو، عمدہ اور لطیف پیرائے میں اس انداز سے بیان کیا جائے کہ سننے والے کو ہنسی È جائے، لطیفہ کہیں گے۔ اس کے لیے حسنِ بیان، حسنِ ادا، اور ذہنی ہم Èہنگی ضروری ہے۔"(فن لطیفہ گوئی:احمد جمال پاشا۔پنج پبلشر لکھنؤ ،یوپی1967ص11)
مجاز کی گفتگو میں یہی سب کچھ بدرجہ اتم موجود تھا۔ وہ محض ایک لطیفہ گو نہیں، بلکہ ایک ایسے فنکار تھے جو باتوں کے ذریعے فکری چنگاریاں بکھیرتے۔
ان کی باتوں میں تخیل، مشاہدہ، مزاح، اور تہذیبی نرمی یکجا تھی۔ ان کی باتیں صرف ہنساتی نہ تھیں، بلکہ سوچنے پر بھی مجبور کر دیتی تھیں۔ان کے قریبی دوست فراق گورکھپوری ان کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:
’’عموما شاعروں کے پاس شاعری کے سوا کچھ نہیں ہوتا، لیکن مجاز کی صحبتوں اور باتوں میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک ایسی خاموش Èتش بازی چھٹتی چلی جا رہی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی... وہ پوری زندگی کو ایک لطیفہ سمجھتے تھے...‘‘(مجاز کے لطیفے:احمد جمال پاشا۔مکتبہ شاہراہ،دہلی۔سن1966۔ص11)
یہ اقتباس نہ صرف مجاز کی فطری لطیفہ گوئی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ان کے اندر پوشیدہ سنجیدہ شعور کو بھی بیان کرتا ہے۔ ان کی ہر بات میں ایک فکری روشنی چھپی ہوتی تھی، اور ان کا مزاح محض تفریح نہیں بلکہ تہذیبی اظہار کا ایک نادر نمونہ تھا۔فردوس Èرزو مزید لکھتے ہیں:
"ایسے زندہ دل اور باغ بہار Èدمی نے وقت کے ہاتھوں بہت ستم اٹھائے... ان کی زندگی میں محرومیوں کی ایسی ہوا چلی جس نے ایک فنکار کے سروقد وجود کو اتنا مختصر کر دیا جیسے کسی بجھتے ہوئے چراغ کی لو۔"(علی گڑھ میگزین: ایڈیٹر : محمد علی جوہر1984-85ص202)
یہ سطر مجاز کی زندگی کے اس المیہ کو بیان کرتی ہے جہاں ہنسی کے پس منظر میں ایک مسلسل ٹوٹ پھوٹ جاری تھی۔ لیکن وہ ہنستے رہے، اور دوسروں کو ہنساتے رہے۔لطیفہ، جیسا کہ احمد جمال لکھتے ہیں:
"ایک مختصر، مگر بامعنی مزاحیہ بیان ہوتا ہے... ایک ہنگامی فرار ہے اس مشینی دور کی اکتا دینے والی زندگی سے..."(فن لطیفہ گوئی:احمد جمال پاشا۔پنج پبلشر لکھنؤ ،یوپی1967ص11)
مجاز کی لطیفہ گوئی بھی ایسے ہی "ہنگامی فرار" کا ذریعہ
تھی، جہاں قہقہوں کے ساتھ ساتھ ذہنوں کو بھی توانائی ملتی تھی۔ ان کی گفتگو نہ صرف خوشی بخشتی، بلکہ فکری مہمیز بھی بنتی۔مجاز کی لطیفہ گوئی دراصل ان کے جمالیاتی شعور، گہرے مشاہدے، اور تہذیبی سلیقے کی عکاس تھی۔ فراق گورکھپوری کے ہی بقول:
’’ان کی صحبتوں میں ایک طرف ہنسی Èتی، اور دوسری طرف ذہن کسی نکتے پر ٹھہر جاتا... وہ بالارادہ بڑے پتے کی بات کر جاتے تھے اور بامعنی خاموشی چھوڑ جاتے تھے۔"(مجاز کے لطیفے:احمد جمال پاشا۔مکتبہ شاہراہ،دہلی۔سن1966۔ص11)
مجاز کے لطیفے وقتی ہنسی کا سامان نہیں تھے، بلکہ وہ دل و دماغ کو چھو لینے والی باتیں تھیں۔ ان کی یہ خوبی انہیں ایک عام مزاح نگار سے بہت بلند مقام پر لے جاتی ہے۔
وہ زندگی کے دکھوں کو ایسے پیرائے میں بیان کرتے کہ سننے والا ہنستے ہنستے اداسی کی تہوں میں جھانکنے لگتا۔آئیے اب ہم مجازکے کچھ مشہور لطیفوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں:
فلمی اخبار کے ایڈیٹر، مجاز سے انٹرویو لینے کے لیے ان کے ہوٹل پہنچ گئے۔انہوں نے مجاز سے ان کی پیدائش، عمر، تعلیم اور شاعری وغیرہ کے متعلق کئی سوالات کرنے کے بعد دبی زبان میں پوچھا:"میں نے سنا ہے، قبلہ! Èپ شراب بہت زیادہ پیتے ہیں۔ Èخر اس کی کیا وجہ ہے؟"مجاز نے کہا:"کس نامعقول نے Èپ سے یہ کہا ہے کہ میں شراب پیتا ہوں؟""تو پھر Èپ سگریٹ کثرت سے پیتے ہوں گے؟""نہیں، میں سگریٹ بھی نہیں پیتا۔ شراب نوشی اور سگریٹ نوشی دونوں ہی بری عادتیں ہیں اور میں ایسی کسی بری عادت کا شکار نہیں۔"ایڈیٹر نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا:"تو Èپ میں کوئی بری عادت نہیں ہے؟"مجاز نے اتنی ہی سنجیدگی سے جواب دیا:"مجھ میں صرف ایک ہی بری عادت ہے کہ میں جھوٹ بہت بولتا ہوں
!
.رات کا وقت تھا۔ مجاز کسی میخانے سے نکل کر یونیورسٹی روڈ پر ترنگ میں جھومتے ہوئے جا رہے تھے۔اسی اثنا میں ادھر سے ایک تانگہ گزرا۔مجاز نے اسے Èواز دی۔ تانگہ رک گیا، Èپ اس کے قریب Èئے۔اور لہرا کر بولے:"اماں! صدر جا ؤگے؟""ہاں، جاں گا۔""اچھا تو جاؤ!"کہہ کر مجاز لڑھکتے ہوئے Èگے بڑھ گئے۔
3.ایک مشہور شاعر اکثر محفل میں اپنے کنوارے پن پر Èہیں بھرا کرتے۔ ایک بار بولے:"جوانی جا رہی ہے، جسم میں جان باقی نہیں رہی، سوچتا ہوں کسی بیوہ سے شادی کر لوں۔"مجاز فورا بولے:"بیوہ کی قید کیوں؟ شادی تو کر لو، بیوہ تو وہ ہو ہی جائے گی.
!"
مجاز سے کسی نے پوچھا:"مجاز صاحب آپ کو عورتوں نے کھایا یا آپ کے قدردانوں نے؟ یا شراب نے؟"شراب کا گلاس منہ سے لگاتے ہوئے مجاز بولے:"ہم نے سب کو برابر کا حصہ دیا ہے!
.جوش ملیح بادی نے ایک بار نصیحت کی:"اگر پینا ہی ہے، تو گھڑی سامنے رکھ کر پیا کرو۔"مجاز نے معصومیت سے کہا:"جوش صاحب، Èپ گھڑی کی بات کرتے ہیں، میرا بس چلے تو سامنے گھڑا رکھ لوں!
راجہ محمد باد نے ایک بار کہا:"دیکھو میاں، شراب چھوڑ دو، تو میں چار سو روپے ماہوار دوں گا۔"مجاز نے ادب سے جواب دیا:"راجہ صاحب! اگر شراب ہی چھوڑ دوں گا، تو ان چار سو روپوں کا کیا کروں گا؟
شوکت تھانوی نے ایک دفعہ مجاز کے والد کی بڑی تعریف کی، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا:"مجاز کو شراب نوشی کی بری عادت پڑ گئی ہے، کسی طرح یہ عادت ان سے چھڑوائیے۔"یہ خبر جب مجاز تک پہنچی تو بہت خفا ہوئے اور شوکت تھانوی سے کہا:"یار! مجھ سے دوستی رکھیے یا میرے والد صاحب سے۔ایک وقت میں باپ بیٹے سے دوستی رکھنے میں، بیٹا تو بیٹا، باپ تک کے بگڑ جانے کا خطرہ ہے
."
ایک محفل میں کسی نے پوچھا:"مجاز صاحب! سرورآ یا؟ مجاز نے نئے ساغر پر نظر گاڑتے ہوئے کہا:"جی نہیں، ابھی تول احمد ہی ئے ہیں
کلیم الدین احمد کی کتاب "اردو شاعری پر ایک نظر" زیر بحث تھی۔مجاز بولے:"جناب! یہ واقعی اردو شاعری پر ایک نظر ہے... لیکن نظر کچھ ترچھی ہے!
ایک دوست نے کہا:"مجاز میں شادی کرنا چاہتا ہوں، مگر ایسی عورت سے جو وائف بھی ہو اور محبوبہ بھی۔"مجاز نے فورا کہا:"ہوں مطلب تم 'مڈ وائف' چاہتے ہو
عالمِ مدہوشی میں، مجاز سے ایک خاتون الجھ پڑیں۔ بات فن تک پہنچی تو مجاز نے کہا:"محترمہ! میں ڈکشن کا ماسٹر ہوں!"خاتون نے چوٹ کی:"تو جوش ملیح بادی کیا ہیں؟ مجاز بولے:"وہ ڈکشنری کے ماسٹر ہیں
ایک بار کسی نے مجاز سے پوچھا:"کیوں صاحب آپ کے والدین آپ کی ان رِندانہ بے اعتدالیوں پر کچھ نہیں کہتے؟"مجاز نے برجستہ جواب دیا:"لوگوں کی اولاد سعادت مند ہوتی ہے، میری خوش نصیبی ہے کہ میرے والدین سعادت مند ہیں!"
رانچی کے پاگل خانے سے علاج کے بعد واپسی پر دوستوں نے مختلف سوالات کیے:"طبیعت کیسی ہے؟ وہاں دن کیسے گزرے؟ ذہنی حالت ٹھیک ہے؟"مجاز جھنجھلا کر بولے:"بھئی، مجھے تو یہاں اور وہاں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں Èتا... لگتا ہے ایک پاگل خانے سے نکل کر دوسرے میں گیا ہوں
ایک بار ایک بزرگ شاعر مشاعرے میں اپنی غزل سنا رہے تھے۔ پیرانہ سالی کے باعث بار بار جنبش ہو رہی تھی، کہ اچانک ان کے مصنوعی دانت گر کر ڈائس پر گرے۔مجاز فورا بولے:"سنیے حضرات! قبلہ شاعر صاحب خالص زبان کا شعر ارشاد فرما رہے ہیں!
مجاز کی زندگی مختصر تھی، لیکن ان کی گفتگو، لطیفے اور اشعار
بھی اردو ادب کے افق پر جگمگا رہے ہیں۔ وہ نہ صرف ایک حساس شاعر بلکہ ایک زندہ دل، فکری، اور تہذیبی شخصیت تھے جنہوں نے زندگی کی تلخیوں کو مسکراہٹوں میں ڈھال کر پیش کیا۔مجاز کی لطیفہ گوئی کو محض ہنسی مذاق کا ہنر سمجھنا ان کی شخصیت کی توہین ہو گی۔ یہ ان کی فطری ذہانت، جمالیاتی حس، گہرے مشاہدے، اور ادبی شعور کا خلاصہ تھی۔ ان کی گفتگو نہ صرف محفلوں کو زینت بخشتی بلکہ دل و دماغ میں دیرپا اثر بھی چھوڑتی تھی۔ مجاز کی ہنسی، ان کے لطیفے، ان کی باتیں اور ان کا دکھ، سب کچھ اردو ادب کا وہ